ڈینگی پھرنمودار

ڈینگی ایک خطرناک مرض ہے جس نے ماضی میں صوبہ پنجاب کے بہت سے لوگوںکو متاثر کیا اور آج کل خیبرپختونخوا میں سر اٹھا رہا ہے۔اس مرض میں خون میں موجود سفید ذروں اور پلیٹ لیٹس کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ پپیتے کے پتوں کا رس استعمال کرنے سے ان کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے ۔یہ علاج خاصا کامیاب لگتا ہے تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ کی ایک معلومات افزاءتحریر
Dengue-and-Chikungunya-Treatment-Jolly-Tulsi-51
ڈینگی بخار نے گزشتہ ماہ خیبرپختونخوا کو اپنا نشانہ بنایاجس کی وجہ سے صوبے بھر میں شدید بے چینی پھیل گئی۔ چند سال قبل اس مرض نے پنجاب میں بھی خاصی پریشانی پیدا کی تھی جس پر وہاں کی صوبائی حکومت نے اسے بہت سنجیدہ لیااور اس کے فوری اور موثر اقدامات کی وجہ سے اس مرض کو بڑی حد تک کنٹرول کر لیا گیا۔ آج کل پنجاب سے ڈاکٹروں کی ٹیمیں خیبرپختونخوا میں مصروف عمل ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی اس پر قابو پا لیا جائے گا۔
ڈینگی بخار (dengue fever) کو عرف عام میں ہڈی توڑ بخار(bone break fever) کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام نام کی بجائے اس کا طبی نام زیادہ مشہور ہے۔یہ ایک متعدی مرض ہے جو چار مختلف قسم کے لیکن ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے وائرسوں سے ہوتا ہے۔ وائرس بیکٹیریا سے بھی کئی گنا چھوٹے ہوتے ہیں اور مختلف وائرس مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے خلاف ابھی تک کوئی خاطر خواہ اینٹی بائیوٹک دریافت نہیں ہو سکی لہٰذا ایک خاص تناظر میں یہ لاعلاج ہی تصور ہوتے ہیں۔ ڈینگی کا شمار بھی اسی فہرست میں ہوتا ہے۔البتہ کچھ طبی اقدامات سے مریض کی مدافعت خاصی حد تک بڑھ جاتی ہے اور اس کا جسم اس موذی مرض کو قابو کرنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں خاصی حد تک کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔
ڈینگی بخار مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے لیکن یہ مچھروں کی اس قسم سے مختلف ہے جو ملیریا پھیلاتے ہیں۔ یہ کالے رنگ کے ہوتے ہیں اور ان کے جسم اور ٹانگوں پر سفید داغ ہوتے ہیں۔ ملیریا کے بعد ڈینگی دوسرا اہم مرض ہے جومچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں5 سے 10کروڑ انسانوں کے خون میں اس کے جراثیم موجود ہیں۔ تاہم ان افرادکی قوتِ مدافعت ان جراثیم کا مقابلہ کر کے اس حال میں مرض سے چھٹکارا دلوا دیتی ہے کہ انہیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ مریض کو زیادہ سے زیادہ ہلکا سا بخارہوتا ہے جو جلد ہی اتر جاتا ہے اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی ان افراد کی ہوتی ہے جن کی قوت مدافعت ان جراثیم کا مقابلہ نہیں کر پاتی اور جنگ ہار بیٹھتی ہے۔ نتیجے کے طور پر مریض کو شدید بخار ہو جاتا ہے اوراسے جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ بخار 104 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اورسرمیں شدیددرد ہوتا ہے۔ اس کے جوڑوں‘ پٹھوں اور ہڈیوں میں بھی ایساسخت درد ہوتا ہے جیسے ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوں۔ اسی لئے اسے ہڈی توڑ بخار کہا جاتا ہے۔ آنکھوں کے ڈھیلوں کے پیچھے بھی درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ چونکہ خون کی رگوں میں سے سیرم(serum) اور پانی نکل جاتا ہے لہٰذا جسم میں خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ سیرم سے مراد خون میں پایا جانے والا شفاف پانی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے ان کا بلڈپریشر گر جاتا ہے اور مریض پر شاک (shock) کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ میڈیسن کی زبان میں’شاک‘ سے مراد کسی زخم یاشدید مرض سے پیداشدہ وہ کیفیت ہے جس میں خون کے حجم میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کی علامات میں بلڈپریشر میں کمی‘ تیز نبض‘ بے آرامی ‘ پیاس اور جلد کاٹھنڈاہونا ہیں۔
خون میں کچھ خاص ذرے ہوتے ہیں جنہیں پلیٹ لیٹس (platelets) کہا جاتا ہے۔کسی زخم‘ بیماری یا زچگی کے دوران اگر خون بہنے لگے تو یہی پلیٹ لیٹس اسے روکتے ہیں۔ ڈینگی بخار میں ان ذروں کی خطرناک حد تک کمی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضاءمثلاً مسوڑھوں اور ناک وغیرہ سے خون خارج ہونے لگتا ہے اور سارے جسم پر نیل پڑ جاتے ہیں۔ رگوں سے رسنے والا سیرم اورپانی پھیپھڑوں کے اردگرد چھاتی اور پیٹ میں جمع ہو جاتا ہے۔ ایسے مریض کو ڈرپ لگانا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔
اگر اس مرض کے حملے میں مریض کی جان بچ جائے تو ہفتے عشرے کے بعد اس کی قوت مدافعت حرکت میں آکر جراثیم کو ختم کر دیتی ہے۔ ایسے میں اگر ڈینگی کا باعث بننے والے جراثیم کی کوئی اور قسم حملہ آور ہوجائے تو مریض کا مدافعتی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ دوبارہ ڈینگی ہوجائے تو اس خطرناک حالت کو ڈی ایچ ایف (Dengue hemorrage fever) کہتے ہیں۔ اس میں مریض کی جان بھی جا سکتی ہے۔ ایسے مریضوں کے علاج کے دوران کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں خون کے علاوہ خاص ذرے یعنی پلیٹ لیٹس بھی دینا پڑتے ہیں۔
میڈیسن کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کسی بیماری کا مستند علاج دستیاب نہ ہو تو لوگ اپنا علاج کرنے کے لئے جڑی بوٹیوں کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔ڈینگی بخار کا علاج صرف قوت مدافعت بڑھانے تک محدود ہے لہٰذا لوگوںنے اس کے لئے نباتات کی طرف رخ کیا اور معلوم نہیں کہ کس طرح پپیتے (Papaya) کا انتخاب کیا۔
اس درخت کے پتے بہت بڑے اور آٹھ حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر انہیں کُوٹ کر رس نچوڑ کر چھانا جائے اور تقریباً دو ملی لیٹرروزانہ دن میں دو بار پانچ دن تک ڈینگی کے مریضوں کو پلایا جائے تو ان کی طبیعت جلد سنبھل جاتی ہے اور پلیٹ لیٹس بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سے اکثر مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ یہ علاج خاصا کامیاب لگتا ہے تاہم اس پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
بچاﺅ کی تدابیر
ڈینگی بخار کے وائرس کی منتقلی اور پھیلاﺅ کو روکنے کاموثر ذریعہ اس کے حامل مچھروں پر قابو پانا ہے۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل ہداےات پر عمل کرناچاہئے:
٭ےہ مچھر پانی کے برتنوں میں انڈے دیتا ہے اور انسانوں کے قریب رہنا پسند کرتاہے۔ انہےں اےسی جگہ پہنچنے سے روکاجائے جہاں یہ انڈے دینا پسند کرتے ہیں۔ کھلے پا نی کے کنٹینرز اور تالاب اس کی مثالیں ہےں۔
٭ ٹھوس انسانی اور حےوانی فضلے کو کھلا نہ چھوڑا جائے۔
٭ گھریلو پا نی ذخیرہ کرنے کی جگہوںمثلاًڈرم وغیرہ کو ڈھانپ دیاجائے۔
٭ گھروں کے باہر کھڑے پانی پر مچھر مار زہر کا اسپرے کیا جا ئے۔
٭ دروازوں پر جالیاں لگوائیں‘ صبح اور شام کے اوقات میں پوری آستینوں والے کپڑے پہنیں ۔نیز مچھروں سے بچاﺅ کے لیے لوشن اور کوائل وغیرہ استعمال کریں۔
________________________________________________________________________________________________________
گھر میںپپیتا ضرور لگائیں
پپیتے کے در ختوں کو اُگانا بہت آسان ہے اور میں نے یہ خود اپنے گھر میں بھی اگائے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بازار سے ایک پکا ہوا پھل لا کر کھا لیں اور بیج( جو کالی مرچوں کی طرح ہوتے ہیں) کو بڑی تعداد میں صحن کے ایک کونے یا کسی بڑے گملے میں دبا دیں۔ دو سے تین ہفتوں بعد اس سے کئی ننھے منے پودے اگنا شروع ہو جائیں گے۔ انہیں پنیری کی طرح استعمال کر کے اپنے باغ یا صحن میں بو دیں۔ ان میں نر اور مادہ پودے ہوتے ہیں اور وہ بھی کہ جن میں ایک ہی درخت میں نر اور مادہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مادہ درختوں کے لئے ایک ہی نر درخت کافی رہتا ہے جبکہ تیسری قسم کے درختوں کے لئے نر یا مادہ درخت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نر اور مادہ پودوں کی پہچان یہ ہے کہ مادہ درخت کے پھول سفید یا زرد ہوتے ہیں اوران کی تہہ میں بیضہ دانی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس نر درخت کے پھول لمبے گھنٹی یابگل نما ہوتے ہیں۔
درختو ں کو ایک قطار میں ایک دوسرے سے10 فٹ کے فاصلے پر اگائیں۔ یہ درخت بہت جلد پروان چڑھ کر ایک سال میں پھل دینے لگتے ہیں جو خربوزے کی طرح ہوتا ہے۔ اوسطاً ان درختوں کی عمر 20 سال جبکہ اونچائی 16 سے 33 فٹ ہوتی ہے۔ یہ درخت آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام کے مصداق بہت ہی مفید ہے۔ یہ زیادہ جگہ نہیں گھیرتے اور چھوٹی سی جگہ پر بھی انہیں اگایا جا سکتا ہے۔ یہ چھتریوں کی طرح اوپر بلند ہو کر پھیلتے ہیں۔ ڈینگی بخار میں پپیتے کی افادیت کے پیش نظر ہرشخص کوچاہئے کہ اپنے اور اپنے عزیزوں کی خاطر اسے گھر میں لازماًاگائے۔

Vinkmag ad

Read Previous

عشق ومحبت کے تالے

Read Next

موسم سرما کی گرم سوغاتیں

Most Popular