گرمیوں میں پیاس زیادہ لگتی ہے اور بعض اوقات پانی سے پیٹ بھر جاتا ہے لیکن پیاس پھر بھی نہیں بجھتی ۔کچھ لوگ کہتے ہیں پانی کم پینے سے گردوں کے مسائل ہو سکتے ہےں‘کچھ کے نزدیک نہار منہ پانی پینا صحت کے لئے اچھا ہے جبکہ بعض سمجھتے ہیں کہ زیادہ پانی پینے سے جلد تروتازہ رہتی ہے ۔ ان تمام مسائل پرماہرانہ رائے جانئے شفا انٹرنیشنل ہسپتال G-10اسلام آباد کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹرمحمدعلی عارف سے گفتگو کی روشنی میں تحریر کردہ اس معلومات افزاءمضمون میں
ہمارے جسم کا70فی صد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اس کا کچھ حصہ خلیوں میں‘ کچھ ان کے درمیان خالی جگہوں میں اور کچھ رگوں میں موجود ہوتا ہے۔جب جسم میں اس کی مقدار ایک خاص حد سے کم ہوجاتی ہے توہمارے دماغ میں موجود ”مرکزپیاس“ اسے محسوس کر کے متحرک ہوجاتا ہے۔ اس سے ہمارے اندرپیاس کا احساس جنم لیتا ہے اورہم پانی پیتے ہیں جس سے ہمارے جسم میں اس کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔
کبھی شدیدپیاس‘ کبھی بالکل نہیں
عمومی مشاہدہ ہے کہ کسی دن ہمیں بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پورادن گزر جاتا ہے اور ہمیں ایک گھونٹ پانی کی طلب نہیں ہوتی۔ اس پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ ایسا قدرت کے نظام کے تحت ہوتا ہے۔ اگر پیاس لگ رہی ہے توآپ پانی پی لیں اور اگر نہیں لگ رہی تو زبردستی پینے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ خدانخواستہ بیمار ہیں تو پھر یہ الگ صورت حال ہے‘ اس لئے کہ کچھ امراض میں پیاس کا احساس نہیں رہتا اور کچھ میں یہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے ۔
روزانہ کتنا پانی پئیں
کہا جاتا ہے کہ ہمیں روزانہ آٹھ گلاس پانی ضرورپینا چاہئے۔ کچھ لوگ 10 اور کچھ 12گلاس پانی پینا بھی تجویز کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملے کو دیکھنے کی یہ نظرہی درست نہیں‘ اس لئے کہ ہر شخص کا جسم ‘ماحول اور حالات مختلف ہوتے ہیں لہٰذا اس کے لئے پانی کی ضرورت بھی مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی ملازمت ایسی ہے جس میں اسے سارادن ائیرکنڈیشن کمرے میں بیٹھ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ اس کی پانی کی ضرورت اس مزدور سے بالکل مختلف ہو گی جو شدید گرمی میں سڑک پر پتھرتوڑ رہا ہے۔ ایسے میںہمیں روزانہ کتناپانی پینے کی ضرورت ہے یہ ہماراجسم ہمیںخود بتاتا ہے اور ہمیں اسی کی بات سننی چاہئے۔ اگر ہم ضرورت سے زیادہ پانی پی لیتے ہیں تو وہ جسم سے خارج ہوجاتا ہے‘ اس لئے کہ ہم اونٹ کی طرح اسے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
پیاس کے علاوہ جسم کے لئے درکار پانی کی ضرورت جاننے کا دوسرا پیمانہ پیشاب کی رنگت ہے۔ اگرجسم میں پانی مناسب مقدار میں موجو دہوتو اس کی رنگت صاف ہوتی ہے۔ اگروہ تبدیل ہوجائے تو اس کامطلب یہ ہے کہ جسم میں پانی کی کمی واقع ہو گئی ہے ۔
بعض اوقات ہمیں پیاس تو نہیں لگی ہوتی لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ دیر کے بعد ایسے وقت اور حالات میں پیاس لگ سکتی ہے جب ہمارے پاس پانی نہیں ہوگا۔ ایسے میں عقلمندی کا تقاضایہ ہے کہ پہلے سے پانی پی لیا جائے یا اپنے ساتھ پانی کی بوتل رکھ لی جائے ۔
کم پانی پینے سے گردوں پر اثر
ہمارے ہاں کچھ لوگ بہت کم پانی پیتے ہیں جنہیں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی یہ ”عادت“ نہ بدلی تو انہیں گردوں کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہے‘ اس لئے کہ جب جسم میں پانی کی کمی ہو گی تودماغ انہیں پیاس لگنے کا پیغام دے گاجس پر وہ پانی پی لیں گے۔ اگر وہ پانی کم پیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان کے جسم میں اس کی کمی پوری ہو رہی ہے۔
تروتازہ جلداور پانی
آج کل ایک اور رجحان بھی سامنے آرہا ہے کہ لوگ‘ خصوصاً خواتین پانی کی بوتل اپنے ساتھ رکھتی ہیںاور وقفے وقفے سے پانی پیتی رہتی ہیں۔ اگراس کا مقصدپیاس بجھانا ہو تو یہ درست عمل ہے لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ اس سے سِکن اچھی رہتی ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے ‘اس لئے کہ جسم ضرورت کا پانی استعمال کرکے باقی جسم سے خارج کر دیتا ہے۔ جلد کے حوالے سے کئی اور پہلو بھی اہم ہوتے ہیں۔مثلاً کچھ لوگوں کی جلد چکنی‘ کچھ کی خشک اور کچھ کی نارمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی عوامل مثلاً سورج کی روشنی میں جانا ‘آب و ہوا کا گرم یا سرد ہونا اور ہوا میں نمی کا تناسب بھی اس حوالے سے اہم ہے ۔
پیٹ بھرجائے لیکن پیاس نہ بجھے
اگر گرمی زیادہ ہو تو بعض اوقات ہم گلاس پر گلاس پانی پئے جا تے ہیں جس سے پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن پیاس نہیں بجھتی ۔تین یا چار گلاس پانی بیک وقت پینے سے دماغ کا ”مرکز پیاس“ اچانک آف نہیں ہوتا بلکہ اسے کچھ وقت لگتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ آہستہ آہستہ پانی پئیں۔ مزید برآں جب پیاس لگتی ہے تو پانی کے ساتھ ساتھ جسم میں نمکیات کی بھی کمی ہو جاتی ہے۔ اگرہم افطاری کے موقع پر پانی میں”اوآرایس“ شامل کرلیں توہماری پیاس بھی بجھے گی اورجسم میں نمکیات کی کمی بھی پوری ہو جائے گی‘ اس لئے کہ اس میں سوڈیم‘ پوٹاشیم اور گلوکوزشامل ہوتا ہے۔رمضان میں آپ ایک سے دو لٹر پی سکتے ہیں اور عام دنوں میں بھی دو سے تین گلاس پینا اچھا ہے۔
نہار منہ پانی پینا
ہمارے ہاں ایک اور تصور یہ بھی پایا جاتاہے کہ نہار منہ پانی پینا صحت کے لئے بہت اچھا ہوتا ہے۔ اگر ہم سائنسی بنیاد پر دیکھیں تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے جبکہ دوسری طرف اس کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیںکہ اس وقت اگر ہم پانی پی لیں تو پھر ناشتہ ذرا ہلکا کرتے ہیں‘ اس لئے کہ پیٹ اس سے بھر جاتا ہے۔ اگر مریض اس میں سہولت محسوس کرتا ہے توبحیثیت معالج ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن ہم کسی کو اس طرح کا مشورہ نہیں دے سکتے کہ نہار منہ پانی پی لیا کریں‘ اس سے فائدہ ہوتا ہے۔
پانی کی کمی کے نقصانات
اگرشدید پیاس لگی ہو اور ہم پانی نہ پئیں تو جسم میں اس کی کمی (dehydration) واقع ہوجاتی ہے۔ اس سے جسم کے خلیوں کو درکار نمی نہیں ملتی اور رگوں میں خشکی کی وجہ سے خون کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے ۔جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے دماغ اور دیگر اعضاءمتاثر ہو سکتے ہیں اور بلڈپریشر بھی نیچے گر سکتا ہے۔ پانی پسینے کے ذریعے جسم کا درجہ حرارت معمول پر رکھتا ہے۔ اگر اس کی کمی ہو جائے تو ٹمپریچر بڑھ سکتا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ پانی کی کمی کی وجہ سے جسم بتدریج شٹ ڈاﺅن کی طرف جا سکتا ہے۔
ڈرِپ کی ضرورت
جب جسم میں پانی کی کمی شدیدہو جائے تو بعض اوقات ہسپتال میں باقاعدہ داخلے اور ڈرِپ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ ڈرپ کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب مریض کسی وجہ مثلاًغنودگی‘ متلی یا الٹیوں وغیرہ کی وجہ سے پانی پینے کے قابل نہ رہے‘ ورنہ اس کا بہترین راستہ پانی پینا ہی ہے۔ اگر فرد کا بلڈپریشر 90/60 سے کم ہوجائے تو بھی ڈرپ کا فیصلہ کیا جاتا ہے‘ اس لئے کہ ایسے میں جسم کو پانی اور نمکیات کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مریض میں کلینکل علامات سامنے آنے لگیں جن میں غنودگی‘ گھبراہٹ اور چکرآنا وغیرہ شامل ہیں تو ہم اس سے کہتے ہیں کہ لیٹ جائے اورپاﺅں کی سطح باقی جسم سے اونچی کر لے۔ اس کیفیت میں بھی اگر وہ منہ کے ذریعے مائع جات لے سکے تو بہتر‘ ورنہ ڈرپ کا آپشن استعمال کیا جاتا ہے۔
گفتگو کو سمیٹتے ہوئے مندرجہ ذیل امور اہم ہیں:
٭ پیاس کے معاملے میں احتیاط ضرور کریں لیکن یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ گلاسوں کی تعداد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ کاجسم آپ کو خود گائیڈ کرتا ہے کہ آپ کو کب پانی پینے کی ضرورت ہے ۔
٭ اگر آپ کو دھوپ میں جانا ہے ‘ماحول یا موسم گرم ہے‘ آپ کو روزہ رکھنا ہے یا کوئی بھی ایسے حالات ہیں جن میں آپ کے جسم سے پانی زیادہ خارج ہونے کا امکان ہے توپھراحتیاطاًپہلے سے پانی پی لیجئے۔
٭روزے کی صورت میں بہترین عمل یہ ہے کہ افطاری کے بعد ہر گھنٹے تھوڑا تھوڑا پانی پیتے رہیں۔ اگر آپ اکٹھے بہت سا پانی پی جائیں گے تو بھاری پن ہو گا اوراضافی پانی خارج بھی ہو جائے گا۔ تاہم زیادہ پانی پینے کا کوئی نقصان نہیں ہے۔
٭پانی پینے کے حوالے سے بہت سے غلط تصورات ہمارے ہاں رائج ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام امور اس جانب راہنمائی کرتے ہیں کہ ہمیں متوازن غذا کھانی چاہئے۔
٭پانی جلدی جلدی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ پینا چاہئے۔
(م۔ز۔الف)
