ہم جانتے ہیں کہ خون کے سفید خلئے (WBC)مدافعتی نظام کا اہم جزو ہیں ۔ان کی مختلف شکلیں اور قسمیں ہیں جن میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہے اور یہ سب مل کر بیماری کے خلاف لڑتے ہیں۔ ان کی ایک شکل لمفوسائٹس (lymphocytes) کہلاتی ہے جو زیادہ تر لمفی نظام میں پائے جاتے ہیں تاہم ہمارے حلق کے مختلف حصوں میں بھی ان پر مشتمل اجسام ہوتے ہیں جنہیں ٹانسلز (tonsils)‘ گلے کی گلٹیاںیا غدود کہتے ہیں ۔حلق میں اس طرح کے تقریباًسات قسم کے غدود موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور وہ ہیںجو حلق کے پچھلے حصے یعنی منہ دھانے (oropharynx)میں ہوتے ہیں۔ انہیں تالو کے غدود(palatine tonsils)کہاجاتا ہے۔ حلق میں ناک کے پچھلے حصے میں پائے جانے والے غدود کو ایڈی نائیڈ ٹانسلز (adenoids tonsils)کہتے ہیں۔ بچوں میں گلے کی بیماریوںمیں ان ٹانسلزکی بیماری(tonsillitis)کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
مرض کی علامات
اس بیماری سے بچے کو گلے میں درد‘ بخار (عموما101ڈگری فارن ہایئٹ سے زیادہ)‘ نگلتے وقت حلق میں شدید درد اور کان میں درد وغیرہ ہوسکتاہے جو عموماًجراثیم کش ادویات کے بغیر ٹھیک نہیں ہوتا۔بعض مریضوں کے گلے میں مسلسل خراش یاکھانسی رہتی ہے۔ اس سے بچوں کی بھوک کم ہوجاتی ہے جس سے ان کا وزن گرنا شروع ہوجاتا ہے۔ بعض مریضوں میں اس کے سبب نیند کے دوران سانس کچھ دیر کے لئے رک جاتا ہے جسے سلیپ اپنیا( sleep apnea) کہا جاتا ہے۔ اس کے سبب نیند پوری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے دن کے اوقات میں اس کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
ناک کے پیچھے والے غدوددو سال کی عمر میں بڑھنا شروع ہوتے ہیں اور چھ سال تک ان کا سائز بڑھتا رہتا ہے ۔اس کے بعد یہ خود بخود کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اورتقریباً 12سال کی عمر میں بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ تاہم بعض صورتوں میںان کے بڑی عمر میں بھی موجود رہنے کا امکان ہوتا ہے۔یوں یہ بیماری چھوٹی عمر سے لے کر20 سال کی عمرتک ہو سکتی ہے۔
ناک کے پیچھے والے ٹانسلزکی وجہ سے بچہ ناک کی بجائے منہ سے سانس لیتا ہے جس سے اُس کے چہرے کی ساخت میں فرق پڑ سکتا ہے۔اس کی وجہ سے اوپر والے دانت اور جبڑا زیادہ واضح اور باہر کو نکلا ہوامحسوس ہوتا ہے اورناک بہتی رہتی ہے۔ٹانسلز کی اس قسم سے کان بھی متاثر ہوسکتے ہیںجس سے بچے کی سماعت خاصی کم ہوسکتی ہے۔یہ کئی مہینوں یا سالوں تک برقراررہ سکتے ہیں۔ان گلٹیوںکی تشخیص کے لیے ایکسرے کروایا جاتا ہے جس میں واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ بچے کو یہ مسئلہ ہے یا نہیں ۔
ٹانسلز کی بیماری سے بچاؤ
’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘ کی کہاوت سینکڑوں سال پہلے جتنی ٹھیک تھی‘ آج بھی اتنی ہی قابل عمل ہے ۔سردیوں میں اس کے ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں‘ اس لیے اس موسم میں بچے کو ٹھنڈی ہوا سے بچانا چاہیے۔ اسے ایسے مشروبات استعمال نہ کرنے دیں جو زیادہ ٹھنڈے ہوں،اس لئے کہ ان کے باعث گلا خراب ہو سکتا ہے۔ اگر بدقسمتی سے بچے کو ٹانسلز کامسئلہ ہوجائے تو کسی مستند ڈاکٹر کو دکھا کر باقاعدہ علاج کرائیں۔
ٹانسلز کا آپریشن
آغازمیں ہی احتیاط کی جائے اور باقاعدہ علاج کرایا جائے تو بعض بچوں میں اس بیماری کو ابتدائی سطح پرہی ختم کیاجاسکتا ہے تاہم انفیکشن غدودوں میں زیادہ پھیل چکا ہو تو پھر آپریشن کروانا ضروری ہوتا ہے۔ ٹانسلز کا آپریشن، سرجری کی تاریخ میں سب سے زیادہ کیا جانے والا آپریشن ہے۔ اس بارے میںآگہی اور جراثیم کش ادویات میں بہتری آنے کے بعد سے اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے تاہم اب بھی ضرورت کے وقت آپریشن کیا جاتا ہے۔
ٹانسلز کے آپریشن کے لیے کچھ باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتاہے۔ مثال کے طور پر مریض کو پچھلے دو سے تین ہفتوں میں کوئی پیچیدہ انفیکشن نہ ہوا ہو۔ دوسرے لفظوں میں اگر اس کوغدودمیں سوجن، نزلہ زکام ،گلا خراب اور بخاروغیرہ ہو توان صورتوں میں آپریشن نہیں کیا جاتا۔ اگرکسی شخص کے گلے کی گلٹیوں میں سوجن ہو تو اس کو ادویات دی جاتی ہیں اور جب سوجن ختم ہو جائے توآپریشن کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ آپریشن سے پہلے یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ مریض ہر لحاظ سے ٹھیک ہواور اسے اور کوئی طبی مسئلہ نہ ہو۔مثال کے طور پرکچھ لوگوں میں ہیموفیلیا (hemophilia)کی بیماری پائی جاتی ہے جس میں خون نہیں جمتا۔ ایسے میںبھی آپریشن نہیں کیا جاتا۔
آپریشن‘پیچیدگیاں
ٹانسلز کا آپریشن دوطرح کی پیچیدگیاں میں کیا جاتا ہے:
1۔اگرغدود میں بار بار انفیکشن ہورہا ہو۔
2۔ٹانسل کاسائزبڑا ہوگیا ہوجس سے کھانے،پینے اور سانس لینے میں دشواری ہورہی ہو۔
مریض اگر علاج کروانے میںتاخیر کرے تو اس سے انفیکشن پھیل کرجسم کے دیگر اعضاء کو متاثر کر سکتا ہے جس میں دل ، گردے اور جوڑوغیرہ شامل ہیں۔اس لیے اس کا آپریشن جلد کروانا چاہیے۔ آپریشن سے چھ گھنٹے پہلے مریض کاکھانا پینا بند کروا دیاجاتا ہے اور اس کے چھ گھنٹے بعد اسے کھانے کے لیے نرم اور ٹھنڈی چیزیں دی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ ان کی خوراک کے سلسلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں چاہئے کہ کولا مشروبات استعمال نہ کریں۔
ٹانسلز کی بیماری کے دوران یا آپریشن کے بعدکچھ بڑے یا بچے کھانا نہیں کھا پاتے ‘ اس لئے کہ انہیں گلے میں درد ہوتا ہے۔ اگر وہ کھانا نہیںکھاتے تو ان کے گلے میں درد ختم نہیں ہوگالہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ آہستہ آہستہ کھائیں بھی اوراسے نگلیں بھی۔ اس سے نہ صرف زخم بہتر ہوتے ہیں بلکہ منہ اور گلے کے پٹھوں کی ورزش بھی ہو جاتی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ گلے میں ہونے والا درد لازماً ٹانسلز کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہ حلق کی سوزش(pharyngitis)کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے جس کا سبب حلق کے باہر کے عوامل مثلاً آلودہ ماحول ، ناک اور سانس کی بیماری ،کھانے پینے میں بے احتیاطی وغیرہ شامل ہیں۔ ان مریضوں میں ٹانسلز کا آپریشن فائدہ مند نہیں ۔اس لیے سوزش کی وجوہات کو دورکرنا اور اس کا علاج کروانا ضروری ہے جس کے لئے حسب ضرورت ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ آپریشن کا فیصلہ صرف مستند ڈاکٹرہی کرے ۔

One Comment
Nice