پانچ سالہ عمار کو بخار ہو گیا ۔جب وہ کچھ دنوں تک ٹھیک نہ ہوا تو اس کی ماں سارہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی جس نے اسے خون کا ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا۔اس کی رپورٹ کی روشنی میں ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کو ٹائیفائڈ ہو گیا ہے۔ماں یہ سن کر پریشان ہوگئی اور ڈاکٹر سے کہنے لگی کہ وہ تو اس کا بہت خیال رکھتی ہیں ‘پھر اسے یہ والا بخار کیسے ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ یہ مضر صحت خوراک اور آلودہ پانی سے پھیلتا ہے:
’’ہمارے ہاں اکثر جگہوں پر پینے کا پانی محفوظ نہیں جو ٹائیفائیڈ سمیت دیگر مسائل کا سبب بن سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ جو لوگ زیادہ تر ڈھابوں پر کھانا کھاتے ہیں‘ وہ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں‘ اس لئے کہ اکثر صورتوںمیں وہاں کھانا ایسے ماحول میں بنتا ہے جس میں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔اب تو بڑے ہوٹلوں کا حال بھی اونچی دکان پھیکا پکوان والا ہے …‘‘
ڈاکٹرصاحب! میں اس موضوع پر آپ سے کچھ اور معلومات بھی لینا چاہتی ہوں۔ کیا آپ کے پاس کچھ وقت ہے؟‘‘ سارہ نے جھجکتے ہوئے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’’ہاں! کیوں نہیں، آپ بات کر سکتی ہیں‘ اس لئے کہ آپ کا بچہ اس وقت میرے پاس آخری مریض ہے ۔میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ آپ جب بھی کسی بھی ڈاکٹر کے پاس جائیں‘ اس سے اس مرض کے بارے میں معلومات ضرور لیں ۔یہ ڈاکٹر کا فرض اور مریض کا حق ہے‘ بشرطیکہ کسی اور مریض کا حق متاثر نہ ہو۔‘‘ ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اس بخا ر کی علامات کیا ہیں؟ میں تو اس کو عام بخار سمجھ کر خود ہی دوائیں لے کر اسے دے رہی تھی ۔‘‘سارہ نے ان سے پوچھا۔
’’دیکھیں! بخار کوئی بیماری نہیں بلکہ کسی بیماری کی علامت ہے جسے مریض خود نہیںسمجھ سکتا۔ اس کے لئے ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ خودعلاجی سے بچیں اور ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم یہ مشورہ پیسہ بنانے کے لئے دیتے ہیں…‘‘
’’ آپ نے بالکل صحیح کہا لیکن ڈاکٹر صاحب! یہ آپ لوگوں کا کاروبار بھی تو ہے…‘‘ سارہ نے کسی قدر بے تکلفی سے کہا۔
’’ اگر اسے ایسے ہی مان لیا جائے تو بھی غلط نہیں۔ اگر آپ کی موٹریا بجلی کی کوئی اور چیز خراب ہو جائے تو آپ خود اسے ٹھیک نہیں کرتے بلکہ کسی ماہر ہی کو بلاتے ہیں‘ اس لئے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے…‘‘
’’جی ، آپ نے درست کہا…‘‘ سارہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ ٹائیفائیڈ کا وائرس جب خون میں شامل ہوتا ہے تو اس کا بخار اچانک نہیں ہوتابلکہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور پھر یکساں رہتا ہے ۔ مثلاً پہلے دن مریض کو 99ڈگری فارن ہائیٹ کا بخار ہو گا‘ پھروہ بتدریج 100‘101 او104 ڈگری تک پہنچ جائے گااور پھر اس پر مسلسل رہے گا۔یہ ا
س کی پہلی علامت ہے ۔ اس کی دوسری علامت یہ ہے کہ یہ سردی اور پسینے والا بخار نہیں، اسی لئے کہ یہ بتدریج بڑھتا ہے۔ بخار کے علاوہ اس کی دیگر علامات میں پیٹ میں درد، ڈائریا، قبض اورجسم پر ریش کے سرخ نشانات ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’یہ علامات تو کسی اور بیماری کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں اس کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے‘‘اس نے سوچتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔
’’یہ دوسری دلیل ہے اس بات کی کہ علامات معلوم ہوں تب بھی خودعلاجی سے بچنا چاہئے، اس لئے کہ بہت سی بیماریوں کی علامات ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ اس کے لئے ڈاکٹر مریض کے دیگر حالات بھی معلوم کرتا ہے ۔ مثلاً وہ یہ پوچھ سکتا ہے کہ پچھلے دنوں کوئی سفر تو نہیں کیا تاکہ دیکھا جاسکے کہ اس دوران اس نے باہر سے کچھ کھایا یا پیا تو نہیں۔‘‘ڈاکٹر نے وضاحت کی ۔
’’ اور ٹیسٹ…؟‘‘ ماںنے پوچھا۔
’’جی ہاں! ضرورت محسوس ہونے پر وہ خون کا ٹیسٹ تجویز کرتا ہے جس کی روشنی میں وہ اس مرض کی تصدیق یا تردید کرتا ہے۔ بعض اوقات مریض کا الٹراساؤنڈبھی کیا جاتا ہے جس میں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے جگر کا سائز بڑھا ہوا تو نہیں۔ اس سے بھی ٹائیفائیڈ بخار کے ہونے یا نہ ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ ‘‘
’’اس کا علاج کیا ہے؟‘‘سارہ نے جلدی سے پوچھا۔
’’ ایسے میں علاج اینٹی بائیوٹک ادویات سے کیا جاتا ہے۔ معالج مریض کی حالت کو دیکھتے ہوئے دوا تجویز کرتا ہے۔یہ ادویات ایک سے دو ہفتوں تک تجویز کی جاتی ہیں۔‘‘
’’اگردوا لینے میں تاخیر ہو جائے تو؟‘‘
’’اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو کچھ پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔بعض اوقات آنت میں سوزش ہوتی ہے اور وہ سوزش اتنی بڑھ جاتی ہے کہ آنت میں سوراخ ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی خون بھی جاری ہو سکتا ہے۔اس صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی غیر معمولی علامت کو نظر انداز مت کریں۔‘‘
’’اس سے بچائو کے لئے ہم کون سی احتیاطیںکر سکتے ہیں؟‘‘
’’انسانوں کو لاحق ہونے والی بہت سی بیماریاں ایسی ہیںجو اس کی اپنی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہیں۔اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ کھانا کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھوں کو لازماً دھوئیں۔پانی ہمیشہ ابال کر استعمال کریں ۔بچوں کو خاص طور پر احتیاط کروائیں کیونکہ وہ سکول میں یاباہر سے ایسی چیزیں کھانے کے عادی ہوتے ہیںجن کی تیاری میں بالعموم صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔مزید برآں سفر کے دوران پانی اور کھانے پینے کی اشیاء اپنے پاس رکھیں ُٓ تاکہ وہ آپ کو راستے میں نہ لینا پڑیں۔ اگر کسی ایسے علاقے میںسفر کیا جا رہا ہو جہاں اس بخار کے ہونے کا خدشہ ہو تو حفاظتی ویکسین ضرور لگوائیں۔ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال اچھی طرح دھو کر کریں۔‘‘ انہوں نے تفصیل سے احتیاطیں بتائیں اور پھر کہا :
’’ مزید کوئی سوال ہو تو پوچھ لیں…‘‘
’’ جی نہیں ڈاکٹر صاحب !کو ئی سوال نہیں۔ بہت شکریہ اتنا وقت دینے کا…۔‘‘ سارہ نے اٹھتے ہوئے کہا: ’’آپ سے بات کر کے بہت سی قیمتی معلومات حاصل ہوئیں ۔ میں ان شاء اللہ ان پر ضرورعمل کروں گی۔‘‘یہ کہہ کر اس نے اجازت لی اور باہر آ گئی۔
