ثمانہ سید۔۔۔
جنوری 2018 میں سپریم کورٹ نے ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت پرازخود نوٹس لیتے ہوئے مارکیٹ میں دستیاب ڈبہ بند دودھ کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کی ہدایت جاری کی اوراسی ماہ میں انجیکشن والے دودھ کی فروخت پر ملک بھر میں پابندی لگا دی۔
دودھ میں ملاوٹ کا معاملہ کسی ایک فرد یا گھرانے تک محدود نہیں بلکہ اس نے ہر فرد کو پریشان کر رکھا ہے جس کی بازگشت لوگوں کی گفتگوﺅں سے لے کر میڈیا اور سپریم کورٹ تک‘ ہرجگہ سنائی دے رہی ہے ۔اس موضوع پرشفانیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اٹک کی 43 سالہ خاتون راحت حمیدنے کہا:
”ہم لوگ پہلے مختلف جگہوں سے کھلا دودھ خریدتے تھے لیکن بالآخر ایک دکاندار پر اعتماد کر کے اسی سے دودھ لینے لگے۔میں گھریلو مصروفیات کی وجہ سے اکثردودھ کو فریز کر دیتی ہوں۔ ایک دن اسے ابالنے کے لئے باہر نکالا تو اس میں دودھ‘ پانی اور پاﺅڈر کی الگ الگ تہیں نظر آئیں۔اس کے بعد ہم نے پیکٹ والا دودھ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پھر ایک دن چائے بنانے کے لیے جب پیکٹ کھولا تو اس میں پانی تھاجبکہ سفید پاﺅڈر نیچے جماہوا تھا۔معلوم نہیں کہ وہ میدہ تھا یا کوئی اور چیز‘ مگر اسے مکس کیا تو وہ دوبارہ دودھ بن گیا۔میں نے اس کی ’ایکسپائری ڈیٹ‘ چیک کی تو وہ ابھی گزری نہیں تھی۔اس دن کے بعد ہم نے پیکٹ کااستعمال چھوڑ کر مجبوراًایک دفعہ پھر کھلے دودھ کا استعمال شروع کر دیا۔“
بات چیت کے دوران ان کے لہجے میں گلہ بھی تھا‘ بے بسی بھی اورمایوسی بھی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے فوڈ ایکسپرٹ محسن بھٹی کے مطابق دودھ میں ملاوٹ کی صورت حال اتنی بری ہے کہ ایک معروف کمپنی تین لاکھ لیٹر دودھ خریدتی ہے جبکہ بیچتی 67لاکھ لیٹر ہے۔سوال یہ ہے کہ باقی دودھ کہاں سے آتا ہے ؟ ایک اور کمپنی نے کبھی دودھ خریدا ہی نہیں مگروہ اپنے ڈبوں پر”بھینس کا خالص دودھ“ لکھ کر انہیںفروخت کرتی ہے ۔لاہور کی ضلعی حکومت کے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے مطابق ادارے نے گزشتہ پانچ سالوں میں دودھ کے 19,718 نمونوں کا جائزہ لیا جن میں سے 17,529میں ملاوٹ پائی گئی ۔
کیسی کیسی ملاوٹیں
پرانے زمانے میں دودھ میں صرف پانی ہی کی ملاوٹ ہوتی تھی لیکن اب تو پورے کا پوراجعلی دودھ فروخت ہونے کی خبریں بھی منظرعام پر آ رہی ہیں جس کی تیاری میں یوریا‘ ڈیٹرجنٹ ‘بال صفا پاﺅڈر‘ویجی ٹیبل آئل اوربناسپتی گھی سمیت 17 مصنوعی اجزا ءاستعمال کیے جا تے ہیں۔اس پر تبصرہ کرنے کے لئے فوڈ اتھارٹی لاہور کی ایڈیشنل ڈائیریکٹر جنرل (آپریشنز) ڈاکٹر رافعہ حیدر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا:
”دودھ کو گاڑھا کرنے کے لئے اس میں پاﺅڈر شامل کیا جاتا ہے جو اس پر بالائی لاتا ہے۔یہ بالعموم غیرمعیاری ہوتا ہے اور چائنہ سے منگوایا جاتا ہے۔دودھ کو گاڑھا کرنے اور اس کی بوچھپانے کے لیے کچھ لوگ اس میں پنسلین(ایک جراثیم کش مادہ ) بھی ڈالتے ہیں تاہم آج کل دودھ میںپانی اور پاﺅڈر کی ملاوٹ ہی زیادہ پکڑی جا رہی ہے ۔“
شفانیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جناح سپتال لاہور کے سینئر میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹرمحمد تابش رضانے بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ ایک سے دوسری جگہ لانے کے دوران دودھ خراب ہوجائے۔اس لئے اس میں جراثیم کی افرائش روکنے کے لیے ایک کیمیکل(فارملین )بھی شامل کیا جاتا ہے۔ فارملین ایک کیمیائی مادہ ہے جونعشوں سمیت دیگر چیزوں کو محفوظ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اس مقصد کے لیے سوڈیم بائی کاربونیٹ اورہائیڈروجن پر آکسائیڈ بھی استعمال ہوتا ہے۔مزید برآں دودھ میں یوریا‘ واشنگ پاﺅڈر ‘کارن فلور‘اورفاسفورس وغیرہ کی بھی ملاوٹ ہوتی ہے۔
ملاوٹوں کے نقصانات
ڈاکٹرتابش رضا کے مطابق دودھ میں کی جانے والی ملاوٹوں سے مندرجہ ذیل نقصانات ہو سکتے ہیں:
٭ اگر دودھ کے برتن گندے ہوں یااس میں آلودہ پانی شامل کیا گیا ہو تو پیٹ کی بیماریاں‘ حتیٰ کہ انتڑیوں کی ٹی بی بھی ہوسکتی ہے۔
٭اگراس میںفارملین ایک خاص مقدار سے زیادہ شامل ہو تو معدے اور انتڑیوں کی سوزش کے علاوہ گردوں کے مسائل پیداہوسکتے ہیں۔
٭ہائیڈروجن پر آکسائیڈ کی ملاوٹ دل‘ شریانوں اور گردوں کے لیے مضرصحت ہے۔
٭دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لئے بھینسوں کو ہارمونز کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں جس سے بھینسیں دودھ تو زیادہ دینے لگتی ہیں مگراس دودھ سے خواتین‘مردوں حتیٰ کہ بچوں میں بھی ہارمونز سے متعلق مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ایسا دودھ پینے سے خواتین میں ماہانہ ایام کی بے قاعدگی پی سی او ایس (polycystic ovary syndrome) ‘ چہرے پرغیرضروری بال ‘ دانے‘ کیل مہاسے ‘ حتیٰ کہ بانجھ پن جیسے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔یہ دودھ انتڑیوں میں السرکا موجب بن سکتا ہے اور الٹیاں‘اسہال اور پیٹ کے دیگر مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
شفا انٹرنیشنل ہسپتال فیصل آبادسے تعلق رکھنے والی ماہرغذائیات عروج رﺅف کے مطابق دودھ میں ملاوٹوں کے مندرجہ ذیل نقصانات ہو سکتے ہیں :
٭واشنگ پاﺅڈر ایک رنگ کاٹ ہے جو اگر دودھ میں شامل ہو تو اس سے معدے کی جھلی متاثر ہو سکتی ہے۔اس سے معدے میں السر بن سکتا ہے اور اگریہ پاﺅڈر خون میںجذب ہو جائے تو گردوں‘جگر اور جسم کے دیگرحصوں میں مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
٭دودھ میں اضافی چکنائی یابناسپتی گھی کی ملاوٹ جسم میں چربی کی مقدار بڑھانے اورنتیجتاً کولیسٹرول‘ہائی بلڈ پریشر اوردل کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔
٭٭دودھ کا 80سے85فی صد پانی جبکہ باقی حصہ دیگر غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے ۔اگراس میں مزید پانی ڈال دیا جائے تواسے خریدنے والوں کودودھ کی غذائیت کا بہت کم حصہ مل پائے گا۔مثلاً خالص دودھ میں اگر 300ملی گرام کیلشیم ہوتی ہے تو ملاوٹ شدہ دودھ میں اس کی مقدار150 ہوسکتی ہے۔اگرخالص دودھ میں چار گرام پروٹین ہوتی ہے تو ملاوٹ شدہ دودھ سے صرف دو گرام پروٹین ملے گی۔
ملاوٹ جانچنے کا طریقہ
عروج رﺅف کے مطابق دودھ میں پانی کی ملاوٹ جانچنے کے لیے دودھ کاایک قطرہ کسی ڈھلوان‘پالش شدہ اور چمکدار سطح پر ڈالیں۔اگر وہ بہتے ہوئے سفید لکیر چھوڑے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ خالص ہے اور اگر وہ پانی کی لکیرچھوڑے جو مٹتی آئے تویہ اس بات کی علامت ہے کہ اس میںپانی شامل ہے۔
٭دودھ کو ابال کراس میں ملاوٹ چیک کی جا سکتی ہے ۔اگر اس پر سفیدموٹی سی تہہ جمنے لگے تو یہ ملاوٹ کی نشانی ہے۔
٭ہلکی آنچ پر دودھ کو دو سے تین گھنٹے ابالنے پر وہ کھوئے کی طرح بن جائے گا۔ اگر وہ سخت اورکھردرا ہو تو یہ اس کے ملاوٹ زدہ ہونے کی نشانی ہے۔خالص دودھ کے کھوئے پر چمک ہوگی‘ جیسے اس پر تیل لگایا گیا ہو۔
٭دودھ میں یوریا کی ملاوٹ پہچاننے کے لیے کھانے کے آدھے چمچ دودھ میں اسی کے برابرسویا بین کا پاو¿ڈرملاکر خوب ہلائیں۔ پانچ منٹ کے بعد اس میں 30 سیکنڈ تک لٹمس پیپر ڈالیں۔اگر پیپر سرخ سے نیلا ہونے لگے تو یہ دودھ میں یوریا کی موجودگی کی نشانی ہے۔لٹمس پیپربازار میں باآسانی دستیاب ہے ۔
٭اگردودھ میں کلف شامل کی گئی ہو توپانچ ملی لیٹر دودھ میں دو کھانے کا چمچ نمک ملانے سے وہ نیلے رنگ میں تبدیل ہونے لگے گا۔
٭پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق دودھ میں کیمیکلز یا واشنگ پاﺅڈر کی پہچان کے لیے پانچ ملی لیٹر پانی میںپانچ ملی لیٹر دودھ ملا کر پانچ منٹ تک ہلائیں۔اگر اس میںجھاگ بننے لگے تو یہ اس میں شامل واشنگ پاﺅڈر یا کسی اور کیمیکل کی علامت ہے۔ایسا دودھ بدذائقہ ہوگا‘ ابالنے سے زرد ہوجائے گا اور ہاتھ پر ملنے سے اس میں جھاگ سی بننے لگے گی ۔
نیشنل میڈیکل سنٹر‘کراچی کی کنسلٹنٹ ڈائی ٹیشن صائمہ رشید کے مطابق دودھ میں بناسپتی گھی کی ملاوٹ جانچنے کے لئے ایک کھانے کے چمچ دودھ میں دو کھانے کے چمچ ہائیڈوکلورک ایسڈ اورایک کھانے کا چمچ چینی شامل کریں۔اگر وہ سرخ ہونے لگے توجان لیں کہ اس میں بناسپتی گھی شامل ہے۔
حاصل بحث یہ ہے کہ دودھ کوئی عیاشی نہیں بلکہ بنیادی ضرورت ہے اور اس میں ملاوٹ سنگین قومی جرم ہے۔ ایسا کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دینی چاہئیں۔اگر ہمیں اپنی‘ اپنے پیاروں ‘ خصوصاً بچوں کی زندگی اور صحت عزیز ہے تو پھرہمیں اس معاملے سے پوری طرح باخبر ہونے اوراس کے خلاف ہر سطح پر آواز اٹھانا ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دودھ کے فائدے
ماہرِغذائیات عروج رﺅف کے مطابق دودھ پینے سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
٭دودھ ایک مکمل اور متوازن غذا ہے جس میں جسم کو توانائی مہیا کرنے والے تمام بڑے غذائی اجزاء(مثلاًنشاستہ‘پروٹین اور چکنائی )موجود ہوتے ہیں۔دودھ میں چھوٹے غذائی اجزاء(مثلاً وٹامنز اور معدنیات)بھی پائے جاتے ہیں‘تاہم کھلے دودھ میں آئرن اور وٹامن ڈی نہیں ہوتے۔جو ڈبہ بند دودھ ان کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہیں‘ ان میں یہ اجزاءاضافی طور پر ڈالے جاتے ہیں۔
٭کیلشیم ایک اہم غذائی جزو ہے اورڈیری مصنوعات(دودھ‘دہی‘پنیر اور لسی وغیرہ) کیلشیم کا بہترین ذریعہ ہیں۔خالص دودھ کے ایک کپ میںتقریباً300ملی گرام کیلشیم موجود ہوتا ہے۔
٭اگربھینس کا دودھ خالص اوربالائی والا ہو تو اس کے نارمل سائز کے ایک کپ(200ملی لیٹر)میںتقریباً150کیلوریز ہوتی ہیں۔
٭ہمیں ایک دن میں کتنا کیلشیم درکار ہوتا ہے‘ اس کا انحصار فرد کی عمر اور جنس پرہے‘ تاہم اوسطاً اس کی ضرورت 1000سے1350ملی گرام ہوتی ہے۔مناسب مقدار میں کیلشیم حاصل کرنے کے لیے دن بھر میں دودھ کے دو گلاس کافی ہیں۔بعض لوگ کیلشیم استعمال کرتے ہیںمگر وٹامن ڈی کو بھول جاتے ہیں۔نتیجتاًان میں کیلشیم کی زیادتی ہونے لگتی ہے‘اس لیے کہ وٹامن ڈی کے بغیر کیلشیم کو جذب ہونے میں دشواری ہوتی ہے۔دھوپ وٹامن ڈی کی فراہمی کا قدرتی ذریعہ ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔اگر جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ہو توڈاکٹر کے مشورے سے سپلیمنٹ کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے ۔
٭غذا میں پروٹین اور نمک کا استعمال زیادہ کرنے والے افراد میں کیلشیم کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے‘ اس لئے کہ دونوں صورتوں میں پیشاب کے ذریعے کیلشیم بھی زیادہ خارج ہونے لگتا ہے۔
٭جن لوگوں کو گائے یا بھینس کا دودھ راس نہیں آتا‘ وہ اس کے متبادل کے طور پر کوکونٹ ملک اور سویا ملک بھی استعمال کر سکتے ہیں۔بادام‘اخروٹ‘سفید لوبیا‘دہی اورپنیر بھی کیلشیم کے اچھے ذرائع ہیں۔جن افراد کو دودھ پینے سے پیٹ میں گیس کی شکایت ہوتی ہو‘ وہ اس میں چٹکی بھر سونف یا الائچی ڈال کر استعمال کریں۔سبز پتوں والی سبزیوں میں بھی کیلشیم کی کچھ مقدار موجود ہوتی ہے۔
٭بعض لوگوں میں کیلشیم کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے جو کئی طرح کے مسائل کا سبب بنتی ہے ۔ اس کا سبب دودھ یا دہی کازیادہ استعمال نہیں بلکہ اس کے سپلیمنٹس کا غیرضروری اور زیادہ استعمال ہے ۔اس لئے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر انہیں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ غلط تصورات
ماہر غذائیات صائمہ رشید کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں دودھ سے متعلق کچھ غلط مفروضے بھی عام ہیں جو درج ذیل ہیں:
٭جن لوگوں کی سرجری ہوئی ہو‘ ان میں سے بعض دودھ پینے سے کتراتے ہیں۔ان کے ذہن میں نہ جانے کیسے یہ بات بیٹھ گئی کہ دودھ پینے سے ان کے زخم خراب ہو جائیں گے یا انہیں انفیکشن ہو جائے گا۔
٭مچھلی کھانے کے بعدیا اس کے ساتھ دودھ نہ پئیں ورنہ برص کا مرض ہو جائے گا۔ یہ بھی ایک مفروضہ ہے جس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مچھلی کے ساتھ دہی (جو دودھ ہی کی ایک شکل ہے )کا رائتہ بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے اور اس سے کوئی بیماری نہیں ہوتی ۔
٭کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دودھ بڑوںاور عورتوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔یہ بھی ایک غلط نظریہ ہے‘ اس لئے کہ اس کی ضرورت سبھی کو ہوتی ہے۔
ڈبہ بند یا کھلا دودھ
صائمہ رشیدکے مطابق دودھ خریدتے ہوئے اپنی سہولت دیکھنی چاہئے‘ اس لیے کہ دونوں اقسام کے اپنے اپنے فوائد اور مسائل ہیں۔ پیکٹ والے دودھ کی مثبت بات یہ کہ وہ جلد خراب نہیں ہوتا‘ اس لئے کہ اس کی حفاظت کے لئے خاص احتیاطی تدابیراپنائی جاتی ہیں۔اگر آپ کے گھر کے نزدیک کوئی ڈیری فارم یاگوالا ہو تواس سے دودھ خریدیں لیکن کچھ چھان پھٹک ضرور کر لیں اوربہتر یہ ہے کہ شاپنگ بیگ کی بجائے اپنا برتن استعمال کریں۔اگر پیکٹ والا دودھ خریدنا ہو تو اس کا لیبل ضرور پڑھیں اور تسلی کر لیں کہ وہ صرف ”وائٹنر“ تو نہیں اور اس کی ایکسپائری ڈیٹ تو نہیں گزر گئی۔ اسے ابالتے ہوئے اس پر نظر رکھیں ‘ اس لئے کہ اس کے رنگ‘بو اورشکل میں تبدیلیاں اس کے ملاوٹ زدہ ہونے کی نشانیاںہےں ۔
