ملاوٹ اور خوراک کی آلودگی

دودھ میں ملاوٹ آج کل ہرجگہ موضوع بحث ہے اور یہ معاملہ عوام میں بڑے پیمانے پر بے چینی اور خوف کا سبب بنا ہواہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان غیرمعیاری دودھ اور پانی کی فروخت کے خلاف ایک درخواست کی سماعت کر رہی ہے۔
نگہداشت صحت کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خوراک‘ بیماری اور جسمانی ضعف کے خلاف پہلی ڈھال ہے۔یہی وجہ ہے کہ قدیم اطباءسے لے کرآج کے ڈاکٹروں تک‘ ہر ایک نے بلاتعطل اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔اوریہ بات تو اظہرمن الشمس ہے کہ نشوونما پانے اور صحت مند رہنے کے لئے ہم خوراک کھاتے ہیں جبکہ ادویات صرف بیماری کے علاج کے لئے درکار ہوتی ہیں۔
گزشتہ چند سالوں کے دوران مردہ جانوروں اور پرندوں کے مذبح خانوں میں پہنچنے سے لے کر گدھوں اور کتوں کے گوشت کی فروخت تک اورغیر معیاری تیل اور گھی سے لے کر جعلی چائے کی پتی بِکنے تک ‘دھوکے بازوں اور قابل مذمت عناصر کی طرف سے ایسی ایسی مجرمانہ سرگرمیوںکی خبریں سننے کو ملیں کہ ان پر الامان والحفیظ ہی کہا جا سکتا ہے۔
پچھلے ہی ماہ ملاوٹ زدہ اور انسانی استعمال کے لئے غیر موزوں دودھ کی فروخت کا معاملہ ایک دفعہ پھر میڈیا میں سامنے آیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملاوٹ زدہ دودھ اس ملک میں فروخت ہورہا ہے جو دنیا بھر میں دودھ کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ 40ارب لیٹردودھ سالانہ پیدا کرنے والے ملک کے لوگ اگر آلودہ اور ملاوٹ سے بھرپور دودھ استعمال کرنے پر مجبورہوں تو اسے قابلِ مذمت نہیں تو اور کیا کہا جا سکتاہے۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت چونکہ اس ضمن میں ایک درخواست کی سماعت کر رہی ہے‘ اس لئے ہمیںامید رکھنی چاہئے کہ وہ اس بارے میںکوئی ایسا فیصلہ کرے گی جس سے دودھ اورپانی میں ملاوٹ کا سدِباب ممکن ہو سکے گا۔مزید براں ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ دودھ اور پانی میں ہی نہیں‘کسی بھی شے میں سزا کے خوف سے بے نیازہو کرملاوٹ کرنے والوں کی راہ روکنے کی کوششوں کا نقطہءآغاز ثابت ہو گا۔
ملاوٹ کی لعنت کو موثر طور پر ختم کرنے کے لئے محض دو عدد عدالتی فیصلے ہی کافی نہیں ہوں گے۔ یہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا مسئلہ ہے جس سے ہر سطح پر اور سختی سے نپٹنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی قانون سازوں کو چاہئے کہ ملاوٹ کی روک تھام اورملاوٹ کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے قوانین متعارف کرانے کو اپنی ترجیح بنائیں۔ صوبائی حکومتوں کو بھی چاہئے کہ اپنی
فوڈ کنٹرول اتھارٹیز کو موثر بنائیں اور اس معاملے کو اپنی اعلیٰ ترین ترجیح بنائیں۔ اشیائے خورونوش کی تیاری اور فروخت کی موثر نگرانی کے لئے انضباطی ادار ے ناگزیر ہیں۔ فوڈ بزنس کے لئے معیارات کا تعین کیاجائے اوراس شعبے میں کاروبار کے لئے لائسنس جاری کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ متعلقہ افراد اور اداروں نے ان معیارات کوقائم رکھا ہواہے۔
اس ضمن میں صارفین کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ انہیں صارفین کی تنظیمیں بنانی چاہئیں اور نہ صرف جعلی کمپنیوں اور ناقص مصنوعات کابائیکاٹ کرناچاہئے بلکہ پریشر گروپس بنانے کے لئے بھی اپنا اثرون
رسوخ استعمال کرنا چاہئے۔اس طرح وہ مقامی حکومتوں کو ملاوٹ کی لعنت پر قابو پانے کے لئے سخت اقدامات کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
ملاوٹ، قتل سے کسی بھی طور کم بڑا جرم نہیں ہے۔ ملاوٹ کرنے والوں کے جرم کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے، اس لئے کہ وہ کروڑوں بے خبر اور معصوم لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اپنے ملک سے اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہمیں پوری مستعدی اور قوت سے حرکت میں آناہوگا۔

Vinkmag ad

Read Previous

موٹاپے سے نجات‘ مگر کیسے؟

Read Next

موٹاپا کم کرنے کی ورزشیں

Most Popular