20 مارچ…خوشی کا عالمی دن خوش رہیں

خوش رہنے کا صحت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے ۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ ہر سال اقوام متحدہ کی جانب سے 20مارچ کو خوشی کا عالمی دن منایاجاتا ہے۔متحدہ عرب امارات نے تو خوشی کی باقاعدہ وزارت بھی قائم کر لی ہے ۔ خوشی کیا ہے اور کیسے حاصل کی جا سکتی ہے، فریحہ فضل کے قلم سے ایک دلچسپ تحریر


 

کاغذ اور قلم کا تعلق بڑاخوبصورت ہوتا ہے ۔ قلم لکھتا ہے اور لکھتا ہی چلاجاتا ہے اور کاغذ کسی مہربان دوست کی طرح وہ سب کچھ اپنے سینے میں سمیٹا جاتا ہے یہاں تک کہ قلم شانت ہوجاتا ہے۔مجھے اس تعلق کی اہمیت کی کبھی قدر نہ ہوتی اگر میں اتنے عرصے تک بوجوہ اس سے دور نہ رہتی۔شروع میں تو عادتاًلکھتی تھی مگر آہستہ آہستہ یہ عادت میرے اندر اتر گئی۔کچھ تعلق خون کے نہیں ہوتے مگر پھر بھی روح سے جُڑے ہوتے ہیں۔میرا ‘اپنی ڈائری سے کچھ ایسا ہی تعلق تھا۔ یہ میری روح اور ذات کی کھڑکی ہے ۔یہ کسی لعن طعن اورنصیحتوں کے انبار کے بغیر میراہر تجربہ‘ احساس‘جذبہ‘آنسو‘ دُکھ‘ اور خوشی سنبھال لیتی ہے۔
ایک دن شام کو ذرا فرصت ملی تو میں نے ٹی وی آن کرلیا جس پر خبریںچل رہی تھیں۔اس دوران ایک بڑی دلچسپ خبرنشر ہوئی کہ متحدہ عرب امارات نے ”خوشی“ سے متعلق ایک وزارت قائم کی ہے جس کے لئے باقاعدہ وزیر کاتعین بھی کیا گیاہے۔ خوشی کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ہرسال 20مارچ کو اس کا عالمی دن منایاجاتا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015ءمیں دنیا کے خوش ترین افراد سوئٹزرلینڈسے تعلق رکھتے تھے۔

ایک سوال یقیناً ذہن میں آتا ہے کہ”کیا خوشی کا صحت سے بھی کوئی تعلق ہے ؟“ جواب کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ”صحت “ کی تعریف اٹھا کر دیکھ لیجئے، خود ہی آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ اس کے مطابق ’صحت صرف بیماری کی عدم موجودگی کا نام نہیں بلکہ اس سے مرادایسی کیفیت ہے جس میں ایک فرد جسمانی ،ذہنی اورسماجی لحاظ سے مکمل طور پر ٹھیک ہو۔“
کون نہیں جانتا کہ خوشی کے بغیر فرد ذہنی اورسماجی ہی نہیں، جسمانی طور پر بھی ٹھیک نہیں رہ سکتا۔
خوشی کیا ہے

”آخر خوشی ہے کیا؟ “خبریں سننے کے بعد یہ سوال میرے ذہن میں کلبلانے لگا۔ میری کزن ڈاکٹر خوش بخت ملتان میں بطور سائیکالوجسٹ کام کررہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مقامی کالج میں تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔میں نے فوراً اُنہیں فون کیا اور اپنا سوال ان کے سامنے رکھا۔اس پر وہ بولیں :
”ایسی خوش کن ذہنی اور جذباتی کیفیت جس میں مثبت اور خوشگوارجذبات جنم لیتے ہوں، خوشی کہلاتی ہے۔“
انہوں نے بتایا کہ عموماً اس کے چار درجے یا سطحیں ہوتی ہیں۔پہلی سطح وہ ہے جس میں یہ مادی اشیاءسے حاصل ہوتی ہے۔ دوسری وہ خوشی جو کسی مقابلے میں فاتح ہونے کے نتیجے میں ہمیں ملتی ہے۔تیسری اچھے کاموں کی وجہ سے اور آخری خوشی جو کامل ہے ’اندر کی خوشی‘ کہلاتی ہے۔
وہ یقیناً’ خوش بخت‘ ہے، اس لئے کہ نفسیات نے اسے بہت ہی پتے کی باتیں سکھا دی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اتنی اہم ہے کہ اس پر پورا مضمون لکھا جا سکتا ہے ۔

خوشی کیوں ضروری
میں نے اپنی کزن سے پوچھا کہ’خوشی ہماری زندگیوں میں کیوں ضروری ہے ؟‘ اس پر اس نے کہا:
” سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ہماری صحت کے لئے اچھی ہی نہیں، ضروری بھی ہے۔خوش رہنے والے لوگوں کی قوتِ مدافعت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اورایسے لوگ زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔ یہ لوگوں کے دلوں میں وسعت پیدا کرتی‘طمانیت کا احساس بیدار کرتی اور تکالیف سے گزرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ دیگر انسانوں سے تعلقات میں بہتری لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خوش مزاج لوگ رشتوں کو بہتر اور کامیاب انداز سے نبھاتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کے مالک بھی ہوتے ہیں۔“
ان کے مطابق ذہنی تناﺅ خوشی کو کھا جاتا ہے لہٰذا خوش رہنے کے لےے اس پر قابو پاناضروری ہے۔ جن لوگوں میں اس سے نمٹنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے‘ وہ مشکل صورت حال میں اچانک گھبرا جاتے ہیں اور حوصلہ چھوڑ جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسی صورت حال میں ایک لمحے کیلئے رکتے ہیں، چیلنج کی نوعیت اور اس کے حجم کا جائزہ لیتے ہیں ‘ اپنی صلاحیتوں کے ساتھ اس کاتقابل کرتے ہیں اورپھر فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کا جزوی یا کلی طور پر مقابلہ کیا جا سکتا ہے یانہیں ۔یہ لوگ یا توپیدائشی طورپر اندر سے مضبوط ہوتے ہیں یا انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مہارتیں سیکھ لی ہوتی ہیں۔ جو بھی ہو، خوش رہنے کے لئے ذہنی تناﺅ کا مقابلہ کرنا سیکھنا چاہئے۔

خوشی کے ذرائع
مختلف لوگوں کے نزدیک خوشی کے ذرائع مختلف ہوتے ہےں۔ مثلاً کسی تخلیق کارکے لئے اس کی تخلیق‘ کسی شاعر کے لئے اس کی نظم‘کسی کرکٹر کے لئے اس کا اچھا سکور‘کسی بزنس مین کے لئے اس کی کاروباری کامیابی خوشی کا باعث ہوسکتی ہے۔
مجھے جین آسٹن کا یہ قول یادآرہا ہے کہ’بڑی رقم ‘خوشی کی سب سے اچھی ترکیب ہے۔‘ معاشی اور مالی استحکام کا احساس خوشی کے احساس کو مہمیز ضروردیتا ہے، تاہم بہت سے لوگ اس کے باوجود اداس رہتے ہیں ۔میری رائے تو یہ ہے کہ دنیاوی طور پر اپنے سے اوپر کے لوگوں کو دیکھنے کی بجائے کم حیثیت کے حامل لوگوں کو دیکھا جائے تو شکرگزاری اور نتیجتاً خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہم توقعات کا دائرہ محدود رکھیں تو زیادہ خوش رہیں گے۔جتنی زیادہ توقعات، اتنی ہی زیادہ بے اطمینانی ہوگی۔
اچھی مجلس یا محبت‘شخصیت میں بنیادی تبدیلی لاتی ہے۔خوش مزاج لوگوںکا ساتھ بھی ماحول‘مزاج اور شخصیت کو بدل سکتا ہے۔ آسکروائلڈ کہتے ہیں کہ’کچھ لوگ جہاں جاتے ہیں، خوشی کا باعث بن جاتے ہیں اور کچھ جہاں سے اٹھتے ہیں، وہاں خوشی کا سماں پیدا ہوجاتا ہے۔‘ اسی طرح اچھی صحت‘ورزش‘تفریح‘ اور قناعت پسندی بھی خوشی کا احساس دیتی۔
میری کزن نے مجھ سے اچانک سوال پوچھ لیا کہ ’بچے خوش کیوںرہتے ہیں؟‘ اس پر میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیاتو وہ بولی کہ بچے بڑوں کی طرح کینہ اوربغض نہیں پالتے۔ ابھی لڑے تو اگلے ہی لمحے باہم شیروشکر ہوگئے۔ یہی چیز بڑے بھی اپنی زندگی میں شامل کر لیںتو خوش رہ سکتے ہیں۔‘ کچھ لوگ روحانیت اور مذہب میں خوشی اور سکون محسوس کرتے ہیں۔روح اگر مطمئن اور پرسکون ہو تو جسم اور دماغ بھی پرسکون اور خوش رہتے ہیں۔

خوشی یاتسکین
میں نے خوش بخت سے آخری سوال پوچھا کہ کیا کسی شوق کی تسکین خوشی کے مترادف ہے؟ مثلاً ایک شخص نشے کا عادی ہے اور اسے نشہ مل جائے تو وہ خوش ہوجاتا ہے۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ خوشی اورتسکین میں واضح فرق ہے۔نشہ تسکین ہے‘ خوشی نہیں۔
میری خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کوئی ’وزیر مملکت برائے خوشی‘ ہو۔یہاں ہر سال بیماریوں کے دن منائے جاتے ہیں لیکن خوشی کا دن کیوں نہیں منایا جاتا ؟
مجھے لگتا ہے کہ خوشی ایک وائرل انفیکشن کی طرح ہے لہٰذا ہم سب کو خوشی کا پیغمبر بننا چاہیے کہ جہاں جائیں‘ خوشیاں پھیلا دیں۔ خوش بخت نے مجھے کہا کہ’ تمہارا مسئلہ میں جانتی ہوں ۔ اگر خوش رہنا چاہتی ہو تو”Be satisfier, not maximizer“ کے محاورے پر عمل کرو۔”maximizer‘ وہ شخص ہے جو ہر میدان میں اول رہنے کی جدوجہد میں ہمیشہ بے چین رہتا ہے۔ اس کے برعکس ’satisfier‘ مطمئن رہتا ہے۔ دونوں کی زندگیوں میں جھانکیں تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اس نے کہا کہ ’میرا مطلب ہرگز یہ نہیںکہ تم محنت چھوڑ دو، البتہ اسے حزرجاں مت بناﺅ۔‘
میں نے تو اس پیغام کو پلے باندھ لیا ہے۔ آپ بھی اپنی خوشی کا کوئی ذریعہ ڈھونڈیں جو آپ کے اندر یااردگرد ہی ہو۔

Vinkmag ad

Read Previous

امتحان کا خوف اور گھبراہٹ

Read Next

چلتے ہوئے چلتے بازو

Leave a Reply

Most Popular