کہتے ہیں کہ مصیبت میں گھبراہٹ اسے ختم نہیں کرتی بلکہ اس میں اضافے کا موجب بنتی ہے ۔دوسری طرف اگراس کا سامنا مثبت سوچ‘حوصلے اور تدبرسے کیا جا ئے تو اکثر صورتوں میں اس سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے‘ ورنہ اسے پرسکون اور اچھے انداز میں گزارا ضرور جا سکتا ہے ۔ اس کی ایک زندہ مثال مشہور کرکٹر اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم ہیں جو ذیابیطس کے ساتھ نہ صرف بھرپور اور فٹنس کے تناظرمیں مثالی زندگی گزار رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ”ذیابیطس نے مجھے صحت مند طرززندگی دیا ہے۔“
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ذیابیطس اگر ایک دفعہ ہو جائے تو پھر یہ بالعموم عمر بھر ساتھ چلتی ہے ۔تاہم اگرڈائٹ پر کنٹرول رکھا جائے ‘ جسمانی سرگرمیوں کو معمول بنایا جائے اور ادویات یا انسولین کے استعمال میں بداحتیاطی نہ کی جائے تو اس مرض کے باوجود نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔ دوسری صورت میں شوگر کنٹرول میں نہیں رہتی اور یہ بیماری جسم کا دیمک ثابت ہوتی ہے اور خاموشی سے تمام حساس اعضاء مثلاًدل،گردے،آنکھیں،پاو¿ں اور جگر کو متاثر کرتی چلی جاتی ہے ۔ ذیابیطس کیا ہے‘کیوں ہوتی ہے اور اس کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے وغیرہ جیسے موضوعات پر اکثروبیشتر لکھا جاتاہے لہٰذا زیرنظر فیچر میں صرف آنکھوں اور پاو¿ں کے مسائل‘ ان کی وجوہات‘ پیچیدگیوں اور احتیاطوں پرتفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔
ذیابیطس‘آنکھ متاثر کیوں
ذیابیطس کی وجہ سے آنکھوں کے مسائل اور پیچیدگیوں پر گفتگو کرتے ہوئے لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدر آباد کے ماہر امراض غدود (اینڈوکرائنالوجسٹ) ڈاکٹر عبدالفاتح کا کہنا ہے :
”خون مےں شوگر کی زےادہ مقدار کی وجہ سے آنکھوں کی چھوٹی چھوٹی شریانیں پھٹ جاتی ہیںجس کی وجہ سے آنکھ کے اندر خون جمع ہونے اور بےنائی ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔“
ساو¿تھ سٹی ہسپتال کراچی کی ماہر امراض چشم ڈاکٹر مہنازنوید شاہ سے جب پوچھا گیا کہ ذیابیطس کے مریضوں کو آنکھوں کے کن مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کے مریض اگر اپنا شوگرلیول کنٹرول نہیں رکھتے تو انہیں نظرکی کمزوری کے علاوہ اس کے دھندلے پن ، موتئے اور پردہ چشم(retina) کے مسائل کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ ان کے بقول:
” ذیابیطس کی وجہ سے آنکھوں کے مسائل کی بروقت تشخیص اور علاج کے لئے ضروری ہے کہ آنکھوں کا سال میں ایک بار ضرور معائنہ کروایا جائے تاکہ پردئہ چشم کی تفصیل سے جانچ کی جا سکے اور یہ دیکھا جا سکے کہ ذیابیطس کے باعث ہونے والی منفی تبدیلیاں آنکھ کو کس حد تک متاثر کر چکی ہیں۔اس معائنے کے بعد ڈاکٹر ان تبدیلیوں کو روکنے کے لئے انجکشن ،لیزر یا سرجری سے علاج کرتے ہیں۔ابتداءمیں عموماً مریض کو صرف اپنا شوگر لیول کنٹرول میں رکھنے اور صحت بخش غذا کھانے کی تاکید کی جاتی ہے۔
پاو¿ں کی دیکھ بھال اہم کیوں
ذےابےطس ایک اےسی بیماری ہے جس کا منفی اثر یوں تو تقریباً سارے جسم پر پڑتا ہے لیکن جن لوگوں کا مرض کنٹرول میں نہیں رہتا ‘ان کے پاﺅں زےادہ متاثر ہوتے ہیں۔ سائنسی نقطہ نظر سے اس کا سبب ےہ ہے کہ پاﺅں ‘خون کی فراہمی کے ذمہ دار عضو یعنی دل اور اعصاب کو کنٹرول کرنے والے عضو یعنی دماغ سے سب سے زےادہ فاصلے پر ہوتے ہیں۔ اس لئے ان میں خون کی سپلائی دیگر اعضاءکی نسبت قدرے کم ہوتی ہے۔ اعصابی نظام کی خرابی کا زےادہ اثر بھی ان پر زیادہ پڑتا ہے۔
ذیابےطس کی وجہ سے جب اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے توعموماً پاﺅں میں حساسیت کم ہوجا تی ہے جس کی وجہ سے ان میں زخم یا دیگر مسائل کا شوگر کے مریضوں کو احساس نہیں ہوتا اوروہ اسے نظرانداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے ذیابیطس کے مریضوں کو پاﺅں کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال کا خاص طور پر مشورہ دیا جاتا ہے۔فٹ سنٹر لاہور کے ماہر امراض پاو¿ںڈاکٹر نثار شاہ کا کہنا ہے :
”شوگر کے مریضوں کو اپنے پاﺅں خشک رکھنے چاہئےں‘ اس لئے کہ نمی کے ماحول میں انفےکشن پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔انہیں چاہئے کہ اپنی جرابوں کو صاف اور خشک رکھیں اور انہےں بدلتے رہیں تاکہ پسےنے والی اور میلی جرابوں کی وجہ سے انفیکشن سے بچا جاسکے ۔ پاﺅں کے ناخن کاٹتے ہوئے خصوصی احتےاط کریں‘ اس لئے کہ اگر ناخنوں کے کنارے ٹھیک طرح سے نہ کاٹے جائےں تو ان کی چبھن سے انفےکشن پھیل سکتا ہے۔ ناخنوں کو بالکل قرےب سے نہیں بلکہ تھوڑا آگے سے کاٹےں تاکہ انگلیوں میں زخم کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔“
ان کا مزید کہنا تھا کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لئے پاو¿ں کا انفیکشن نقصان دہ تو ہے ہی لیکن اگر وہ انگلی کی ہڈی تک پہنچ جائے تو وہ بے جان ہو سکتی ہے۔ اےسے میں اسے کاٹناپڑ سکتا ہے تاکہ باقی پاﺅں کو بچاےا جا سکے۔بعض اوقات انفےکشن پاﺅں کی انگلی سے شروع ہو کر اندر ہی اندر اوپر کی طرف پھےلنا شروع ہو جاتا ہے اور دےکھنے میں بظاہر چھوٹے سے زخم کے اثرات گھٹنے ےا اس سے بھی اوپر تک پھےل جاتے ہیں۔ اےسے میں جسم کے دےگر اعضاءکو بچانے کے لئے پوری ٹانگ کاٹنا پڑ سکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ بہت سی صورتوں میں محرک(stimulus) ہمارے بس میں نہیں ہوتاتاہم اس پر ردعمل (response)کا اظہار 100 فی صد ہمار ے بس میں ہوتا ہے۔اگرآپ کو خدانخواستہ شوگر ہو گئی ہے تو اپنی ڈائٹ پر کنٹرول کیجئے ‘ جسمانی سرگرمیوں کواپنے معمول میں شامل کیجئے اور ادویات یا انسولین کے استعمال میں بد احتیاطی نہ کیجئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے پاﺅں کی حفاظت کیجئے اور سال بھر میں ایک بار اپنی آنکھوں کا معائنہ ضرور کروائیے۔اس طرح آپ ذیابیطس کے باوجود نارمل اور صحت مند زندگی گزار سکیں گے۔
………………………………………………………………………….
شوگر کا مرض‘آنکھوں کے مسائل
ڈاکٹر مہناز نوید شاہ ‘ماہر امراض چشم ‘ ساو¿تھ سٹی ہسپتال کراچی
نظر کادھندلا جانا: جب مریض کے خون میں گلوکوز کا لیول مناسب حد سے بڑھ جاتا ہے تواس کی آنکھ کے عدسے میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کے باعث آنکھ کا پانی جذب ہونے لگتا ہے اور مریض کو وقتی طور پر دھندلا نظر آتا ہے۔یہ جسم کی طرف سے ایک الارم ہوتا ہے کہ شوگر کی مقدا رکافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ جب کچھ وقت کے بعد یہ سطح معمول پر آنے لگتی ہے تو آنکھوں میں پانی کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے اور دھندلاہٹ باقی نہیں رہتی۔
نظر کی کمزوری : ذیابیطس کے مریضوں کا شوگر لیول مسلسل بڑھے رہنے سے آنکھ کے اندر خون کی باریک نالیاں بھی متاثر ہونے لگتی ہیں۔ان نالیوں سے خون آنکھ کے اندررِسنا(leak) شروع ہوجاتا ہے اور جب وہ پردہ چشم پر گرتا ہے تو نظر کمزور ہونے لگتی ہے۔اس کے علاوہ آنکھ جب خون کی کمی کی شکار ہوتی ہے تو وہ خوکارنظام کے تحت نئی نالیاں بنانا شروع کردیتی ہے جس سے بینائی کے دیگرمسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
موتیا اترآنا: یہ شکایت ان مریضوں کو زیادہ ہوتی ہے جن کے خون میں گلوکوز کی سطح کافی عرصے تک زیادہ رہی ہو۔اس طرح گلو کوز کی ایک تہہ آنکھ کے عدسے پر جمع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے یہ دھندلاجاتا ہے۔ اس غیر شفافیت کے باعث روشنی پردہ چشم تک پوری طرح نہیں پہنچ پاتی۔ میڈیسن کی زبان میں اسے ”Posterior Subcapsular Cataract“ کہا جاتا ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں زیادہ دیکھا گیا ہے۔ اس کا علاج آپریشن کے ذریعے کیا جاتا ہے جس میں دھندلا جانے والے عدسے کو نکال کر اس کی جگہ پلاسٹک کا عدسہ ڈال دیاجاتا ہے ۔
ریٹینو پیتھی: اسے ”عارضہ¿ پردہ¿ چشم“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مریض کی آنکھ کے اندرونی پردے میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ ابتدائی درجہ میں پردہ¿ چشم میں موجود خون کی انتہائی باریک نالیاں (جنہیں کیپیلریز کہتے ہیں) کمزور ہوکر پھیل جاتی ہیںاور ان سے اضافی رطوبت چھن چھن کر پردہ¿ چشم کو ڈھانپ لیتی ہے۔خون کی ان رگوں میں جب رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو وہ اورزیادہ رطوبت خارج کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ جورگیں صحیح کام نہ کررہی ہوں‘ اُن کی جگہ نئی رگیں پیدا ہوجاتی ہیں۔جیسے جیسے خون کی نئی نالیاں پیدا ہوتی اور پھیلتی چلی جاتی ہیں‘ مریض کے لئے دیکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔
…………………………………………………………………………..
جوتے کا انتخاب
ڈاکٹرعمریوسف راجہ ‘ ماہر امراض غدود‘شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد
شوگر کے مرےضوں کو نرم جوتوں کا انتخاب کرناچاہئے‘ خصوصاً ان کے تلوے لازماً نرم ہونے چاہئےں۔ اگر جوتا سخت ہو گا تو وہ پاﺅں کے ساتھ بار بار رگڑ کھائے گا جس سے اس پر زخم بن جائے گا۔جوتا پاﺅں کے سائز کا ہونا چاہئے۔ اگر ےہ چھوٹا ہو گا تو تنگ کرے گا۔ اس میں کوئی سخت چےز نہےں ہونی چاہئے۔ جب جوتا مرمت کرایاجاتا ہے تو بعض اوقات موچی اس میں کیل ذرا ٹےڑھا لگا دےتا ہے جو بظاہر تو چھپ جاتا ہے لےکن پاﺅں کو تکلیف دیتا رہتا ہے۔ بعض اوقات دھاگا بھی سخت ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کیل اوردھاگے کو نکال دےنا چاہئے۔
شوگر کے مرےضوں کو چاہئے کہ جوتا ایسا استعمال کرےں جو آگے سے بند ہوکیونکہ اگر وہ قینچی چپل جےسا کھلا جوتا استعمال کرےں گے توانہےں پاﺅں کے اگلے حصے میں چوٹ لگ سکتی ہے۔تاہم جوتا اتنا بند بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اس میں ہوا کا بالکل گزر ہی نہ ہو سکے۔ جوتے کے ہوادار ہونے سے پاو¿ں خشک رہے گااور انفےکشن کا خطرہ کم ہو گا۔
………………………………………………………………………..
