60ءکی دھائی میں ایک دوا کے مضر اثرات نے دنیابھر میں تباہی مچا دی ۔ اس کے سبب لاتعدادحمل ضائع ہوئے اور بہت سے بچے شدید قسم کی پیچیدگیوں کے شکار ہوئے ۔ اس سے حاملہ خواتین کو سبق سیکھنا چاہیے کہ حمل کے دوران اور خاص طور پراس کے ابتدائی عرصے میں منشیات اور بغیر ڈاکٹری مشورے کے ادویات استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ یہ بہت ضروری ہے ورنہ انہیں حمل گرنے یا دیگر پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ کی ایک معلوماتی تحریر
وارڈ میں داخل ہوتے ہی میں نے انچارج نرس سے فرینک (فرضی نام) کابیڈ نمبر پوچھا۔اسے کچھ ہی دیر پہلے ہسپتال میں داخل کیاگیاتھا ۔اگلے دن اس کا آپریشن تھااوربحیثیت ہاﺅس سرجن‘ مجھے اس کے مرض کی ہسٹری لینا تھی اور ضروری ٹیسٹ اور ایکسرے کروانا تھا۔وہ بیڈنمبر 18 پر لیٹا ہوا تھا۔ نرس میرے ساتھ مریض کے بیڈ تک گئی اور فرینک سے میرا تعارف کرایا۔ میں نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا تو جواب میں فرینک نے اپنا دایاںکندھا آگے بڑھا دیا۔مجھے اس وقت احساس ہوا کہ اس کا دایاں بازو ہی موجود نہیں۔ کندھے پراس کی قمیض کے ایک سوراخ سے ایک عضو جھانک رہا تھا جسے بمشکل ہی بازو کہا جا سکتا تھا۔ اس کے ساتھ تین انگلیاں لگی ہوئی تھیں جن کی ساخت بھی ٹیڑھی میڑھی سی ہی تھی۔
مجھے لگا کہ اسے ہلکی سی خفت محسوس ہوئی ۔ممکن ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو تاہم خود مجھے خفت ضرور محسوس ہوئی تھی۔ اسے مٹانے کے لئے میں نے اس کے کندھے پرہلکی تھپکی دی اور کہا کہ مجھے اس سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ میں نے غیرمحسوس انداز میں اس کے دوسرے کندھے کا جائزہ لیا اور پھر اس کی ٹانگوں کی طرف دیکھا۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کا بایاں بازو بھی نہ تھا اور مختصر سی دوٹانگیں تھیں۔ بغور مشاہدے پر بھی فوری طور پر محسوس نہ ہو سکا اُس کے گھٹنے اور زانو کہاں ہیں۔ اس کے دونوں پاﺅں موجود تھے لیکن ان میں پانچ پانچ انگلیوں کی بجائے ایک میںچار اور دوسرے میں تین انگلیاں تھیں۔
یہ 1969ءکی بات ہے اور میں ایک سال قبل ہی امریکہ میں سرجری کی پانچ سالہ ٹریننگ مکمل کرکے انگلستان آیا تھااور میں نے ’کونٹری ‘ میں آرتھوپیڈکس میں ہاﺅس جاب شروع کردی تھی۔
فرینک کو ہسپتال میں لائے جانے کا سبب اس کے دائیں پیر کے انگوٹھے میں بہت زیادہ ٹیڑھاپن آجانا تھااوروہ اس کے لئے شدید تکلیف کا باعث بن رہاتھا۔ڈاکٹروں نے بادل نخواستہ انگوٹھا کاٹنے کا مشورہ دیا تاکہ اسے درد سے نجات مل سکے ۔ ایسا کردےنے کے بعد اس پاﺅں میں صرف تین انگلیاں باقی رہ جانی تھیں۔
مریض نے مجھے بتایاکہ اس کی یہ حالت ایک دواکے استعمال کی وجہ سے ہوئی ہے جس کا نام تھیلی ڈومائیڈ (Thalidomide) تھا۔ یہ دوا جرمنی میں ہٹلر کے زمانے میں ایجاد ہوئی تھی اور 1957ءتک لوگ اسے دھڑا دھڑ استعمال کررہے تھے۔ یہ دوا ( ٹی ایم ) استعمال کرنے والے کے ذہنی تناﺅ کو ختم کردیتی اور بے خوابی کا کامیاب علاج سمجھی جاتی تھی ۔
اس وقت تک جنگ عظیم دوم ختم ہو چکی تھی اور دنیا کو ہٹلر سے نجات مل گئی تھی لیکن اس کے باوجود لوگوںکے دل و دماغ پر گہرے منفی اثرات باقی تھے ۔ اس کے سبب کئی لوگ رات کو بے خوابی کا شکار تھے۔ انہیں کسی اچھی خواب آور دواکی ضرورت تھی اور ٹی ایم نے ان کی یہ ضرورت پوری کردی تھی۔ اسے بنانے والی کمپنی نے اُسے صحت کے لئے محفوظ قراردیاتھا ۔
اکثر خواتین کو حمل کے ابتدائی دنوںمیں صبح کے وقت الٹیاں آتی ہیں ۔ آسٹریلیا کے ایک ڈاکٹر نے اس دوا کی ایک خاصیت یہ بھی معلوم کی وہ ان خواتین کو الٹیوں سے نجات دلاتی ہے ۔چنانچہ حاملہ خواتین نے ان گولیوں کو بہت رغبت سے استعمال کرنا شروع کردیا ۔
ٹی ایم جرمنی سے ہوتی ہوئی ساری مغربی دنیا میں پھیل گئی۔ برطانیہ‘ یورپ اور امریکہ میں اس دوا کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ایک سال کے دوران امریکہ میں اس کی 25لاکھ گولیاں استعمال کی گئیں۔ جب تک اس کے برے اثرات کا پتہ چلتا‘تب تک کم و بیش 10ہزار معصوم بچے اس کی بھینٹ چڑھ چکے تھے ۔ ایسے بچے اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہوں گے جو حمل ضائع ہونے کی وجہ سے اس دنیا میں قدم ہی نہ رکھ سکے۔ یہ اُن کی خوش قسمتی تھی ورنہ وہ عمر بھر اپاہج کی زندگی گزارتے ۔
بہت سے بچوں کو پیدائش کے وقت ہاتھوں‘بازوﺅں اور ٹانگوں سے محروم دیکھا گیا ۔کئی بچے پیدائش کے بعد اس لئے مرگئے کہ ان کے دل اور دیگر اہم اعضاءاچھی طرح تشکیل نہ پائے تھے ۔ان میں سے کئی بہرے پیدا ہوئے۔ تقریباً 10ہزاربچے زندہ رہے جن کے ہاتھ یا پاﺅں ٹھیک طرح سے نہ بن پائے تھے۔ ان میں سے کئی آج بھی زندہ ہیں اور امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپ اور جاپان میں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔
پہلے تو حکومتوں کو یقین نہیں آرہاتھا کہ ٹی ایم سے ایسی خطرناک پیچیدگیاں بھی پیداہوسکتی ہیںلیکن جب یہ بات ثابت ہو گئی تو اس کی مزید تیاری کو روک دیاگیا۔ نتیجتاً ٹی ایم کو 1960ءکی دہائی میں مارکیٹ سے اٹھا لیاگیا۔ دواساز کمپنی نے ایسے معصوم بچوں کی مالی امداد کی جنہوں نے یہ دوا استعمال کرنے والی ماﺅں کے ہاں جنم لیا تھا۔
اس دوا سے متاثرہ کئی بچوں نے اپنے پاﺅں اور دیگر اعضاءسے ہاتھوں کا کام لینے کا ہنر سیکھ لیا۔یہی حال میرے مریض فرینک کا بھی تھا۔میں نے دیکھا کہ وہ اپنے پاﺅں کی انگلیوں میں قلم پکڑ کر نہ صرف لکھ سکتا تھا بلکہ کسی حد تک آرٹ ورک بھی کرلیتاتھا ۔پیروں ہی کی مدد سے وہ کھانے کے لئے چھری کانٹابھی استعمال کرتا۔ وہ جس صفائی سے کھانا کھارہاتھا‘اُسے دیکھ کر میرے دل نے بے ساختہ اسے داد دی۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی افراد ہاتھوں کی مددسے بھی اس صفائی سے کھانا نہیں کھاسکتے جس صفائی سے وہ پاﺅں کی مدد سے کھا رہا تھا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی جسم میں قدرت نے عجیب صلاحیتیں رکھی ہیں۔اگر وہ کسی ایک عضو یا اس کی صلاحیت سے محروم ہوجائے تو اُس کے جسم کا کوئی اور عضو کسی حد تک وہ ڈیوٹی سنبھال لیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نابینا افراد کی قوت سماعت بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ کسی چیز کی آواز یا اس سے پیداشدہ گونج سے وہ کچھ معلوم کرلیتے ہیں جو صاحب چشم لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ٹی ایم کے خطرناک نتائج کا یہ مثبت اثر ضرور ہوا کہ کوئی بھی نئی دوا ایجاد یا دریافت ہوتو حاملہ عورتوں کے لئے اس کے موزوں یا غیرموزوں ہونے کا ٹیسٹ بھی کیاجاتا ہے۔
اس دوا کی کہانی 1960ءکی دھائی میں اختتام پذیر نہیں ہوئی بلکہ نئے انداز سے جلوہ گر ہو چکی ہے ۔دنیا کے دو ممالک میں کوڑھ (Leprosy) کا مرض دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ان میں سے ایک ہندوستان ہے جہاں کی آبادی سواارب سے زائد ہے۔ دوسرا ملک برازیل ہے جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑاملک ہے۔یہاں ہر سال اوسطاً 30ہزار لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔
ٹی ایم پر مزید تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ کوڑھ کا موثر علاج ہے اوراس کے بروقت اور ٹھیک استعمال سے اس کے اکثر مریض صحت یاب ہوجاتے ہیں ۔لہٰذا برازیل کی حکومت نے یہ دوا بنانے یا اسے درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اب وہاں ہر سال ٹی ایم کی 10 لاکھ گولیاں استعمال کی جارہی ہیں۔تاہم حکومت کی طرف سے تاکیداً کہاگیا ہے کہ ایسی گولیاں حاملہ خواتین قطعاً استعمال نہ کریں۔ اگر کوئی عورت اسے استعمال کرنا چاہے تو اسے ٹیسٹ کرانا ہوگا کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔
اس احتیاط کے باوجود لاعلمی کی وجہ سے بہت سی حاملہ خواتین اسے استعمال کرلیتی ہیں۔ نتیجتاً وہاں ایک بارپھربغیر بازو اوربغیر ہاتھ پاﺅں کے بچے پیدا ہونے لگے ہیں اوران کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی بچے دیگر پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں اور حمل گرنے کی شرح میںبھی اضافہ ہورہاہے۔اس کے باوجود کوڑھ کے مرض میں اس کی افادیت کی وجہ سے اس دوا کا استعمال جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔کوڑھ کے علاوہ ٹی ایم ایک خاص کینسر کا بھی کامیابی سے علاج کرسکتی ہے۔یہ کینسر ہڈیوں میں پیدا ہوتا ہے جسے ملٹی پل مائیلوما(Maltiple Myeloma)کہاجاتا ہے۔
امریکہ میں ٹی ایم کے استعمال کو روکنے میں ایک سائنسدان خاتون فرانسس کیلسی(Frances Kelsey)نے اہم کردار اداکیاتھا۔اس وقت کے امریکی صدر کینیڈی نے اس کی خدمات کو سرہاتے ہوئے اسے اعزازی تمغہ بھی پیش کیاتھا۔اس کی کوششوںکے نتیجے میں بہت سے معصوم بچے اس کے منفی اثرات سے بچ گئے ۔
اس سے حاملہ خواتین کو سبق سیکھنا چاہیے کہ حمل کے دوران اور خاص طور پراس کے ابتدائی عرصے میں منشیات اور بغیر ڈاکٹری مشورے کے ادویات استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ یہ بہت ضروری ہے ورنہ انہیں حمل گرنے یا دیگر پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
