اظہار کی حوصلہ افزائی

عام مشاہدہ ہے کہ بچے اپنی بات ،جو بہت سی صورتوں میں بے معنی بھی ہوسکتی ہے، بڑوںکوسناناچاہتے ہیں اور بار بار سنانا چاہتے ہیں ۔ کم وبیش یہی صورت بعض اوقات بزرگوں کی بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے واقعات ، مشاہدات اور تجربات بار بار دہراتے ہیں ۔ جن خاندانوں میں ایسی صورتوں میں عدم دلچسپی، ڈانٹ ڈپٹ یا جھجلاہٹ کاطرزعمل اختیارکیاجائے ‘وہاں تمام اہل خانہ اوربالخصوص بچوں کی کمیونیکیشن شروع سے ہی منفی طورپر متاثر ہوجاتی ہے ۔خالد رحمٰن کی ایک توجہ طلب تحریر


تیاریاں مکمل ہونے کوتھیں۔ سرجن اور طبی عملے کے تمام ذمہ دار اپنی اپنی جگہ موجود تھے۔ مریض کو بے ہوش کرنے کے بعد آپریشن کا آغاز ہونے ہی والا تھا کہ ایک جونئیر ڈاکٹر کو احساس ہوا کہ کچھ غلطی ہورہی ہے۔ سینئرز کی موجودگی میں ان کی ہی کسی غلطی کی نشان دہی کرنامشکل ہوتا ہے۔ لیکن اسے بار بار غور کرنے پر اب یقین ہورہا تھا کہ اس کا احساس درست ہے۔
آپریشن ایک نوعمر مریض کے ہاتھ کاہوناتھا اور جونئیر ڈاکٹر کاخیال تھا کہ جس ہاتھ کا آپریشن کیاجارہاہے ‘وہ صحت مند ہاتھ ہے۔ مریض بے ہوش تھاچنانچہ وہ خود کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ بالآخر اس جونئیر ڈاکٹر نے اپنے خیال کاکھل کراظہار کر ہی دیا لیکن باقی لوگ پراعتمادتھے۔انہوں نے اس کے خدشات کومسترد کردیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی بات دہرانے کی کوشش کی لیکن اب کسی قدر درشت لہجہ میں اسے چپ رہنے کے لیے کہہ دیاگیا۔
چند منٹ میں ہی ’ٹیم‘ نے محسوس کیاکہ جونئیرڈاکٹر کی بات درست تھی ۔ انہوں نے غلط ہاتھ کا آپریشن کردیاتھا۔ جونیئر ڈاکٹر کی بات اگرچہ صحیح نکلی اور بظاہر اس نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی تھی لیکن لیکن اس کا کہناتھا کہ وہ خود کومجرم محسوس کررہا ہے۔ اس کاخیال تھا کہ شاید اسے اپنی بات زیادہ موثر انداز میں کہنی چاہیے تھی ۔اس کے خیال میں اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو یہ اس لیے تھا کہ اسے مو¿ثر انداز میں اپنی بات کہنے کاہنر معلوم نہ تھا۔
انسان سے غلطی کا صدورہوجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ۔ زندگی کے کسی بھی دائرے میں ایساہوسکتا ہے ۔ درحقیقت ایک معنی میں غلطی انسانوں کے سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے۔ تاہم زندگی کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں غلطی کی صورت میں انسانی جان کی ہلاکت اور یاکسی اور غیرمعمولی نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور اگر کام ایک ٹیم کی صورت میں ہورہا ہو تو ٹیم کے تمام ارکان کے درمیان تعلق کے حوالے سے ایسا کھلا ماحول ہوناچاہےے جس میں تمام افراد، بالخصوص جولوگ عمریامرتبہ کے اعتبار سے جونئیر ہوں، اعتماد کے ساتھ اپنی بات کہہ سکتے ہوں اور دوسری جانب ان کی بات پر کھلے دل سے غور بھی کیاجائے۔
اجتماعی معاملات میں ایسے ماحول کی تشکیل کیسے ہو؟ اور اس ضمن میں انسانوں کی تربیت کس طرح کی جاسکتی ہے؟ اس کے لیے ان دنوں متعدد پیشہ ورانہ ادارے وجودمیں آچکے ہیں۔ اس موضوع پر بہت سا لٹریچر دستیاب ہے اورخودتعلیمی عمل میں بھی اس پرتوجہ دی جاتی ہے جبکہ ادارے اپنے ملازمین کی تربیت کے لیے خصوصی کورسز بھی کرواتے ہیں۔ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم میں بھی اسی تناظرمیں کمیونیکیشن کی مہارتوں پرخصوصی توجہ دی جانے لگی ہے ۔ اس تعلیم میں مریض اور اس کے لواحقین ،ساتھی معالج اورماتحت عملے کے ساتھ کمیونیکیشن میں جن امورکاخیال رکھاجاناچاہےے‘ وہ اس کا خصوصی حصہ ہوتے ہیں ۔
یہ تمام پیش رفت اپنی جگہ بہت مفید ہے تاہم کمیونیکیشن کے حوالے سے انسانی زندگی کے آغاز میں گھرسے ملنے والی تربیت نہایت اہم ہوتی ہے۔ گھر کاماحول ایسا ہونا چاہئے جس میں تمام اہل خانہ کے درمیان باہم تبادلہ¿ خیال عام طورپرہوتاہو‘ فیصلے کرتے ہوئے وہ اپنی اپنی رائے کااظہار کرسکتے ہوں اورغلطی ہوجانے پر اس کا اعتراف کرلینے اور معذرت کرلینے میں کوئی حجاب محسوس نہ کیاجاتا ہو۔یہ عوامل بچپن ہی سے انسان کی ایسی تربیت کردیتے ہےں کہ پھر پیشہ ورانہ زندگی میں اسے اپنے کمیونیکیشن کو مو¿ثر بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ بچے اپنی بات ،جو بہت سی صورتوں میں بے معنی بھی ہوسکتی ہے، بڑوںکوسناناچاہتے ہیں اور بار بار سنانا چاہتے ہیں ۔ کم وبیش یہی صورت بعض اوقات بزرگوں کی بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے واقعات ، مشاہدات اور تجربات بار بار دہراتے ہیں ۔ جن خاندانوں میں ایسی صورتوں میں عدم دلچسپی، ڈانٹ ڈپٹ یا جھجلاہٹ کاطرزعمل اختیارکیاجائے ‘وہاں تمام اہل خانہ اوربالخصوص بچوں کی کمیونیکیشن شروع سے ہی منفی طورپر متاثر ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ کمیونیکیشن کی صلاحیتوں کے حوالے سے عام طور پر اپنے ’خیالات کے اظہار‘ کی صلاحیت مراد لی جاتی ہے لیکن درحقیقت اس سے بھی زیادہ اہم عنوان ’سننے‘ کی صلاحیت ہے۔ کھلے ذہن سے بات کو سننا دوطرفہ تعلق اور اعتمادکوبڑھاتا اور غلطی یا غلط فہمی کے امکانات کوکم سے کم کردیتا ہے۔ اور یہ صورت حال انفرادی اور اجتماعی ‘دونوں ہی سطح پر کارکردگی کوبہتر بناتی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

توجہ کا ارتکار کھیل ہی کھیل میں

Read Next

اُف! یہ ٹھنڈ

Leave a Reply

Most Popular